باب اول: خاموشی میں چھپی آوازیں
شہیر ایک عام سا نوجوان تھا۔ کراچی کی ایک پرانی کوٹھی میں اپنے دادا کے ساتھ رہتا تھا۔ کوٹھی انگریزوں کے زمانے کی تھی، بلند چھتیں، لکڑی کی سیڑھیاں، اور ہر کمرے میں بڑے بڑے آئینے۔ بچپن سے شہیر نے ان آئینوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، مگر ایک آئینہ، جو دادا کے کمرے میں لگا تھا، اسے ہمیشہ عجیب سا محسوس ہوتا۔
یہ آئینہ باقی آئینوں سے مختلف تھا۔ نہ صرف اس کا فریم سیاہ چاندی سے بنا تھا بلکہ جب بھی شہیر اس کے سامنے کھڑا ہوتا، ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ کسی اور دنیا میں جھانک رہا ہو۔
ایک رات جب دادا گہری نیند میں تھے، شہیر اپنے موبائل پر ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے اچانک آئینے کی طرف متوجہ ہوا۔ روشنی مدھم تھی، مگر آئینے میں کچھ عجیب نظر آیا۔
وہ پیچھے مڑا — کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ دوبارہ آئینے میں دیکھا، تو وہاں ایک دلہن کھڑی تھی۔
باب دوم: پہلی ملاقات
وہ دلہن سرخ جوڑے میں تھی، اس کی آنکھیں بڑی اور پرکشش تھیں، مگر اُن میں ایک عجیب سی اُداسی جھلک رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ آئینے کی اندرونی سطح کے قریب آ رہی تھی، جیسے شیشے کے پار سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہو۔
شہیر ساکت کھڑا رہا۔ اچانک اُس دلہن نے لب ہلائے، مگر آواز نہیں آئی۔ صرف لبوں کی حرکت سے وہ ایک لفظ سمجھ سکا:
"محبت"
دوسری رات وہی منظر دہرایا گیا۔ تیسری رات وہ دلہن قریب آ کر بولی، "میرا نام نائلہ ہے، اور میں تم سے محبت کرتی ہوں۔"
شہیر نے گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہا، مگر جیسے ہی اُس نے سوال کیا: "تم کون ہو؟"، آئینہ دھندلا ہو گیا۔
باب سوم: دادا کی پرانی ڈائری
شہیر کو یہ سب خواب لگا، مگر جب یہ سلسلہ کئی دن جاری رہا تو اُس نے فیصلہ کیا کہ دادا کی کتابوں میں کچھ تلاش کرے۔
دادا اکثر پرانی کتابیں اور نوٹ رکھ کر تاریخ کے پرانے رازوں پر تحقیق کرتے تھے۔
ایک پرانی ڈائری میں شہیر کو درج ذیل الفاظ ملے:
"1812 میں بنے اس آئینے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وقت کی قید سے آزاد ہے۔ اس میں قید چہرے اُس وقت تک نظر آتے ہیں جب تک وہ کسی کو اپنی دنیا میں کھینچ نہ لیں۔"
شہیر کی سانسیں رک گئیں۔ کیا نائلہ بھی اس آئینے میں قید ہے؟ کیا وہ کسی اور زمانے سے ہے؟
باب چہارم: نائلہ کی حقیقت
اُس رات شہیر نے نائلہ سے صاف لفظوں میں سوال کیا:
"تم کون ہو؟ تم کیوں آئینے میں ہو؟"
نائلہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُس نے آہستگی سے کہا:
"میں 2090 سے ہوں۔ میرے زمانے میں انسان آئندہ میں جھانک سکتے ہیں، مگر واپسی ممکن نہیں۔ میں ایک تجربے کا حصہ تھی... ایک 'Time Reflection' نامی پروجیکٹ کی گنی پُھنی آزمائشی شخصیات میں سے۔"
"تو تم... وقت میں پھنس گئی ہو؟"
"نہیں، میں تمہارے وقت میں آنا چاہتی ہوں، کیونکہ میرا وقت ختم ہو چکا ہے... اور تم وہ واحد شخص ہو جسے میں برسوں سے دیکھ رہی ہوں۔ تم میرے مقدر میں ہو۔"
باب پنجم: محبت یا جال؟
شہیر کا دل اب نائلہ کے لیے دھڑکنے لگا تھا۔ وہ کئی راتوں تک اُسے سنتا، اُس کے مسکراتے چہرے کو دیکھتا، اور خود کو اُس کی باتوں میں کھو دیتا۔ مگر ایک شب دادا نے اُسے آئینے کے سامنے پایا تو سختی سے منع کیا:
"یہ آئینہ لعنت ہے، بیٹا! تمہاری جان لے لے گا۔ میں نے تمہارے والد کو بھی یہی کرتے دیکھا تھا۔ وہ بھی ایک عورت سے باتیں کرتا تھا — اور ایک دن غائب ہو گیا۔"
شہیر چونک گیا۔ کیا اُس کے والد بھی اسی جال میں پھنسے؟
دادا نے بتایا کہ وہ بھی کئی سال پہلے اسی آئینے کی حقیقت سے آشنا ہوئے، مگر وہ اُس کے سحر سے بچ گئے۔
شہیر اب شش و پنج میں تھا — کیا نائلہ سے محبت حقیقت تھی، یا وہ آئینے کے جال کا ایک حصہ تھی؟
باب ششم: آخری فیصلہ
ایک رات نائلہ نے التجا کی:
"بس ایک بار آئینے کے سامنے میرے ہاتھ کو تھام لو۔ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔ ہم ایک نئی دنیا میں ہوں گے۔ بس تم اور میں۔"
شہیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا۔
جیسے ہی اُس نے نائلہ کی انگلیوں کو چھوا، آئینہ روشنی سے بھر گیا۔ ایک جھماکا ہوا — اور پھر مکمل خاموشی۔
باب ہفتم: غائب لمحے
دادا صبح اُٹھے تو شہیر اپنے کمرے میں نہیں تھا۔ اُنھیں کچھ سمجھ نہ آیا، مگر جب اُنھوں نے آئینے کی طرف دیکھا — وہ اب صرف ایک عام سا شیشہ تھا۔
دادا نے وہی ڈائری کھولی، اور آخری صفحے پر کچھ نئے الفاظ درج ہو چکے تھے:
"شہیر اب اُس کے ساتھ ہے — کسی اور زمانے میں۔ شاید خوش، شاید قید میں۔ مگر محبت نے اُسے بلایا تھا، اور وہ چلا گیا۔"
باب ہشتم: آئینے کے پار
دور ایک جدید شہر، شفاف گنبدوں سے ڈھکا ہوا، مصنوعی چاندنی میں نہایا ہوا۔ نائلہ ایک خوبصورت گھر میں بیٹھی تھی، اور اُس کے سامنے شہیر — کچھ الجھا ہوا، کچھ حیران، مگر اُس کی آنکھوں میں محبت کی چمک تھی۔
"کیا یہ خواب ہے؟" شہیر نے پوچھا۔
نائلہ نے مسکرا کر جواب دیا، "نہیں... یہ ہمارا مستقبل ہے۔ اور اب، ہم دونوں وقت کی قید سے آزاد ہیں۔"
اختتامیہ:
کوئی کہتا ہے آئینہ سچ بولتا ہے، کوئی کہتا ہے وہ دھوکہ دیتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے — ہر آئینے کے پار ایک اور دنیا ہے۔
شاید آپ کا پیار بھی کسی آئینے میں قید ہو... بس دیکھنے کی دیر ہے۔


Post a Comment