FmD4FRX3FmXvDZXvGZT3FRFgNBP1w326w3z1NBMhNV5=
items

آخری پتا گرنے سے پہلے

 

آخری پتا گرنے سے پہلے

باب 1: پرانا گھر، پرانا درخت

چھوٹے سے قصبے کے کنارے ایک پرانا مکان تھا، جس کی دیواروں پر وقت کی نمی اور عمر رسیدہ خاموشی نے اپنا قبضہ جما رکھا تھا۔ اس کے صحن میں ایک بڑا سا برگد کا درخت تھا۔ اس درخت پر ہر موسم میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آتی رہتیں، لیکن سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی اس کے پتے ایک ایک کر کے جھڑنے لگتے۔

اسی گھر میں ایک تنہا، نحیف و نزار بوڑھی عورت خالہ زینب رہتی تھی۔ سفید بال، کانپتے ہاتھ، اور آنکھوں میں ایک الگ سی اداسی۔ وہ اکثر اس درخت کو تکتی رہتی، جیسے اس کی سانسیں اس درخت کے ساتھ جڑی ہوں۔

خالہ زینب کا ماننا تھا کہ جب اس درخت کا آخری پتا جھڑ جائے گا، وہ بھی دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔

محلے والے اس یقین کو بوڑھی عورت کی بڑ سمجھے، لیکن خالہ زینب اسے اپنے نصیب کا حصہ سمجھتی تھی۔ اس کے شوہر اور بیٹا ایک حادثے میں برسوں پہلے فوت ہو چکے تھے، تب سے وہ زندگی سے کٹی کٹی رہنے لگی تھی۔ یہی درخت اس کا آخری سہارا تھا۔




باب 2: ناصر کا تعارف

خالہ زینب کے پڑوس میں ایک چھوٹا سا کنبہ نیا نیا آیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک دس سالہ بچہ بھی تھا — ناصر۔ ناصر کم گو تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو ہر بچے کے دل میں چھپی معصومیت اور محبت کو ظاہر کرتی ہے۔

خالہ زینب اور ناصر کی ملاقات پہلی بار اس وقت ہوئی جب وہ دروازے کے سامنے بیٹھی اپنے کانپتے ہاتھوں سے چائے پی رہی تھی اور ناصر چپکے سے اس کے باغ میں گیند ڈھونڈنے آیا۔

"خالہ، گیند مل سکتی ہے؟"
"لے لے بیٹا، یہ تیرا ہی باغ ہے۔"

اسی دن سے ناصر روزانہ خالہ زینب کے پاس آنے لگا۔ کبھی پانی پلانا، کبھی دوا یاد دلانا، کبھی درخت کے نیچے بیٹھ کر کوئی کہانی سننا۔

خالہ زینب نے کبھی کسی کو اپنا بیٹا نہیں کہا، لیکن ناصر کو وہ ہمیشہ "میرے بچے" کہہ کر بلاتی تھی۔ ناصر بھی انہیں "امی 

خالہ" کہنے لگا تھا۔



باب 3: ایمان کا راز

ایک دن، جب سردی کی ہوا نے درخت سے آخری چند پتوں کو بھی کپکپانا شروع کر دیا، ناصر نے خالہ زینب کو کھڑکی سے باہر تکتے ہوئے دیکھا۔

"امی خالہ، کیا دیکھ رہی ہیں؟"

خالہ نے آہ بھری، "بس وہ آخری پتے، بیٹا۔ اب شاید وقت آ گیا ہے۔"

"کون سا وقت؟"

"میں نے خواب میں دیکھا تھا، ناصر۔ جب اس درخت کا آخری پتا گرے گا، میری سانس بھی ساتھ چلی جائے گی۔"

ناصر خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے خالہ کے ہاتھ تھامے، "نہیں امی خالہ، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ درخت سردیوں میں پتے گراتے ہیں، لیکن پھر بہار آتی ہے۔"

خالہ نے مسکرا کر کہا، "لیکن میری بہار شاید وہ آخری پتا ہے۔"

اسی رات ناصر نے ایک عجیب فیصلہ کیا — وہ خالہ زینب کا آخری پتا گرنے نہیں دے گا۔


باب 4: بچپن کی چالاکی

اگلے دن، جب خالہ زینب سو چکی تھیں، ناصر چپکے سے ایک سبز کاغذ لیا، اس پر ایک پتے کی شکل بنائی، اسے قینچی سے تراشا، اور پتوں والی جگہ پر چپکانے کے لیے گوند اور تار ساتھ لیا۔

وہ درخت کے پاس گیا، اور احتیاط سے کاغذی پتا ٹہنی سے باندھ دیا۔

صبح خالہ زینب نے جب دیکھا کہ درخت پر اب بھی وہی آخری پتا موجود ہے، تو ان کی آنکھوں میں نئی چمک آ گئی۔ "دیکھا ناصر؟ قدرت نے میری بات سن لی۔"

ناصر خاموش رہا، بس مسکرا دیا۔

یہ سلسلہ کئی دن چلا۔ جب بھی کوئی پتا گرتا، ناصر رات کو چپکے سے نیا پتا بنا کر لگا دیتا۔ کچھ دنوں میں خالہ زینب کی طبیعت سنبھلنے لگی، جیسے وہ جی رہی ہوں صرف اس ایک پتے کے سہارے۔


باب 5: خالہ کی وصیت

ایک دن خالہ زینب نے ناصر کو پاس بٹھا کر کہا، "میرے بچے، اگر میں کبھی چلی گئی تو میرے کمرے میں ایک صندوق ہے۔ اسے کھولنا، اور وہاں تمہیں میری ایک وصیت ملے گی۔"

ناصر نے روہانسا ہو کر کہا، "نہیں امی خالہ، آپ کہیں نہیں جائیں گی۔ وہ پتا اب کبھی نہیں گرے گا۔"

خالہ نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، "پتے آخر ایک دن گرتے ہی ہیں۔ لیکن تم نے مجھے ایک نئی زندگی دے دی، ناصر۔ تم میرے بیٹے جیسے ہو۔"

ناصر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن اس نے خالہ سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی وصیت کو کبھی نہیں بھولے گا۔


باب 6: آخری پتا… اور امید

چند ہفتے گزر گئے۔ سردی اپنے جوبن پر تھی۔ ناصر نے اب ہر رات خوبصورت سے پتے بنانا شروع کیے۔ کبھی وہ کاغذی، کبھی پلاسٹک، کبھی مصنوعی ریشمی۔ ہر بار وہ کوشش کرتا کہ پتا اصل لگے۔

ایک رات، شدید سردی کے بعد جب ناصر صبح خالہ زینب کے کمرے میں گیا، تو وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھیں، آنکھیں بند، چہرے پر سکون۔

ناصر نے آواز دی، "امی خالہ…؟"

کوئی جواب نہ آیا۔ وہ آگے بڑھا، ہاتھ چھوا — خالہ زینب اب نہیں تھیں۔


باب 7: صندوق کا راز

جنازے کے بعد، ناصر نے خالہ کا کمرہ کھولا۔ ان کی کرسی کے نیچے وہی صندوق رکھا تھا۔ اس نے آہستہ سے اسے کھولا۔

اندر ایک خط رکھا تھا:

"میرے پیارے بیٹے ناصر،
اگر تم یہ خط پڑھ رہے ہو، تو سمجھو کہ میں اب دنیا میں نہیں ہوں۔
لیکن تم نے مجھے جس محبت سے نئی زندگی دی، وہ میرے نصیب کا سب سے روشن حصہ ہے۔
وہ پتے… جنہیں میں تقدیر کا اشارہ سمجھتی تھی… تم نے انہیں امید کا پیغام بنا دیا۔

میرے بینک میں کچھ جمع پونجی ہے۔ اس کا پاس بک بھی اسی صندوق میں ہے۔ یہ سب تمہارا ہے۔
صرف ایک گزارش ہے — میری قبر کے پاس ایک چھوٹا سا پودا لگانا، تاکہ وہ پتہ اب کبھی نہ گرے۔

محبت سے،
تمہاری امی خالہ
زینب"

ناصر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے وہ خط اپنے دل سے لگایا اور آسمان کی طرف دیکھا۔


باب 8: نیا آغاز

چند دن بعد، محلے کی مسجد کے قریب ایک ننھا سا پودا لگا دیا گیا، جس پر ایک تختی تھی:

"یادگارِ زینب — امید کا درخت
ہر پتے میں ایک نئی زندگی چھپی ہے۔ کبھی امید مت چھوڑو۔"

ناصر نے وہ پودا روز پانی دینا شروع کر دیا۔ اس کے دل میں اب خالہ زینب کی باتیں، محبت اور وہ آخری پتا ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے تھے۔




اختتامیہ

"آخری پتا گرنے سے پہلے" صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ محبت، خلوص اور امید، تقدیر کے لکھے کو بھی کچھ دیر کے لیے روک سکتی ہے۔ ایک بچے کے معصوم عمل نے ایک زندگی کو طول دیا — اور ہمیں سکھایا کہ کبھی بھی آخری پتے کے گرنے کا انتظار نہ کریں۔ اس سے پہلے کسی کے لیے امید کا نیا پتا لگا دیں۔

0/Post a Comment/Comments

Advertisement

73745675015091643

Advertisement


Loading...