عنوان: وارثِ خون
پہلا باب: شرافت کا سایہ
گاؤں "چک گلزار" میں مرزا حلیم الدین کا بڑا نام تھا۔ وہ نرم مزاج، دیندار اور عزت دار انسان تھے۔ اُن کی زندگی دو بیٹوں، سفیان اور نعمان، کے گرد گھومتی تھی۔ بیوی کا انتقال جوانی میں ہو گیا تھا، لیکن اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت باپ کے ساتھ ساتھ ماں بن کر بھی کی۔
مرزا صاحب نے پچاس سال کی محنت سے گاؤں میں ایک بڑی حویلی، دو دکانیں، اور پانچ ایکڑ زرعی زمین بنائی تھی۔ گاؤں میں لوگ اُنہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ لیکن حلیم الدین کو کیا خبر تھی کہ اُن کی جائیداد ہی اُن کے بیٹوں کے درمیان آگ بن کر بھڑک اٹھے گی۔
دوسرا باب: شک کی شروعات
سفیان تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر چلا گیا اور وہاں ملازمت کرنے لگا۔ اس کی شادی ایک پڑھی لکھی، مگر حد سے زیادہ خود غرض عورت "زنیرہ" سے ہوئی۔ دوسری طرف، نعمان گاؤں میں رہا، باپ کے ساتھ زمینوں کی دیکھ بھال کرتا رہا، اور ایک سادہ مزاج لڑکی "مہرین" سے شادی کر لی۔
زنیرہ نے شروع سے ہی سفیان کے ذہن میں زہر گھولنا شروع کر دیا۔
"تمھارا باپ ساری زمین تمھارے بھائی کو دے دے گا۔ تمہیں صرف نوکری کرنی ہے؟"
شروع شروع میں سفیان ہنستا رہا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا دل بھی بدلنے لگا۔ اُس نے زمین، حویلی اور دکانوں کے کاغذات میں دلچسپی لینی شروع کی۔
تیسرا باب: تقسیم کی تجویز
ایک دن سفیان اچانک گاؤں آ گیا۔ اس نے نہایت ادب سے باپ سے کہا:
"ابا، وقت کا کیا بھروسہ؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی زندگی میں ہی جائیداد تقسیم کر دیں تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔"
مرزا صاحب کو بات عجیب لگی، مگر بڑھاپے نے اُنہیں نرم کر دیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں بیٹوں کو برابر حصہ دیا جائے گا۔
یہ فیصلہ نعمان کے لیے قابل قبول تھا، لیکن سفیان اور زنیرہ کے لیے ہرگز نہیں۔ زنیرہ نے کہا:
"نعمان نے تو باپ کی خدمت کر کے اُن کا دل جیت لیا، اب وہی سب لے جائے گا؟ تم بڑے ہو، تمہارا حصہ زیادہ ہونا چاہیے!"
چوتھا باب: نفرت کی آگ
آہستہ آہستہ دونوں گھروں کے درمیان نفرت، شک اور انا کی دیواریں کھڑی ہونے لگیں۔ زمینوں کے پانی کے بٹوارے سے لے کر دکان کی چابی تک ہر معاملے پر جھگڑے ہونے لگے۔
ایک دن زنیرہ نے چھپ کر کاغذات چوری کیے اور شہر کے وکیل سے رابطہ کر کے کچھ حصے اپنے نام منتقل کروانے کی کوشش کی۔ نعمان کو جب پتا چلا، تو اُس نے غصے میں سفیان کو تھپڑ مار دیا۔
یہ تھپڑ صرف گال پر نہیں، دل میں بھی لگا۔ اب بات ذاتی ہو چکی تھی۔
پانچواں باب: خونی رات
عید سے ایک رات پہلے، پورے گاؤں میں رونق تھی۔ مگر حویلی کے اندر آتش فشاں پھٹنے کو تیار تھا۔
نعمان نے مرزا صاحب سے کہا:
"ابا، اگر زمین ہماری زندگی برباد کر رہی ہے تو بیچ دو اور پیسے ہمیں دے دو۔ ہم الگ الگ اپنا گھر بسالیں گے۔"
یہ بات سفیان کو سنائی گئی۔ وہ غصے میں لال ہو گیا۔
رات کو جب سب سو چکے تھے، نعمان کھیتوں کی طرف گیا تو سفیان اُس کے پیچھے گیا۔ دونوں کے درمیان زبردست جھگڑا ہوا، اور غصے میں سفیان نے بیلچے سے نعمان کے سر پر وار کر دیا۔ خون بہنے لگا، نعمان نے آخری کوشش میں سفیان کا گلا دبا دیا۔
صبح کے وقت دونوں کی لاشیں کھیتوں میں پڑی تھیں۔ گاؤں کے لوگ سکتے میں آ گئے۔
چھٹا باب: ایک باپ کا ٹوٹنا
مرزا حلیم الدین جب اپنے بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر وہاں پہنچے، تو اُن کے ہاتھ سے لاٹھی گر گئی۔ اُن کی آنکھیں خالی تھیں، جیسے روح جسم چھوڑ چکی ہو۔
چند دن بعد، اُن کا بھی انتقال ہو گیا۔ حویلی بند ہو گئی۔ زمین غیر آباد ہو گئی۔ دکانیں کاغذوں میں بٹ گئیں۔
زنیرہ اور مہرین الگ الگ شہروں میں کرایے کے گھروں میں بچوں کو پال رہی تھیں، اور ہر رات اپنے شوہروں کی موت کا ذمہ دار خود کو بھی سمجھتی تھیں۔
آخری باب: زمین تو رہ گئی
جس زمین کے لیے دو بھائیوں نے ایک دوسرے کا خون کیا، وہ آج بھی وہیں ہے۔
نہ اُس پر کھیتی ہوتی ہے، نہ ہنسی کی گونج آتی ہے۔ بس وقت کی گرد ہر شے کو ڈھانپ چکی ہے۔
دیہاتی اب بھی کہتے ہیں:
"یہ وہی کھیت ہیں جہاں دو بھائی زمین کے لیے لڑے اور مر گئے۔"
سبق
یہ کہانی صرف ایک خاندان کی نہیں، بلکہ ہر اس انسان کے لیے آئینہ ہے جو جائیداد کو رشتوں سے بڑھ کر سمجھتا ہے۔ دولت آتی جاتی ہے، لیکن جب رشتے ٹوٹتے ہیں تو اُن کی قیمت صرف قبرستان ادا کرتا ہے۔


Post a Comment