FmD4FRX3FmXvDZXvGZT3FRFgNBP1w326w3z1NBMhNV5=
items

خاموش صدا — مکمل اور وسعت یافتہ ورژن

 

خاموش صدا — مکمل اور وسعت یافتہ ورژن

(افسانہ — حقیقی درد اور حوصلے پر مبنی)

❖ آغازِ عشق

شازیہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ تعلیم یافتہ، بااخلاق، اور نرم دل لڑکی جس کا سب سے بڑا خواب ایک ایسا ہمسفر تھا جو اُسے سمجھے، سنے، اور سچے دل سے چاہے۔ اُس کی ملاقات فرحان سے یونیورسٹی میں ہوئی۔ فرحان سمارٹ، پرکشش، اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔

محبت ہوئی، پھر نکاح۔ دونوں نے خوابوں کی ایک چھوٹی سی دنیا بسائی۔ زندگی جیسے مکمل ہو گئی تھی۔

❖ زخموں کا لمحہ

شادی کے کچھ مہینے بعد، ایک شام دونوں پارک گئے۔ وہی پارک جو شازیہ کو بہت پسند تھا — وہ جگہ جہاں ہریالی، خاموشی، اور فرحان کا ساتھ، سب کچھ مکمل لگتا تھا۔

مگر اُس دن… چار درندے وہاں پہلے سے موجود تھے۔
اچانک حملہ، فرحان کی بےبسی، اور شازیہ کی چیخیں اُس لمحے کو ہمیشہ کے لیے بدل گئیں۔



❖ بزدلی کا نقاب

شازیہ نے سوچا کہ فرحان اُسے گلے لگا لے گا، اُسے حوصلہ دے گا۔ مگر وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"لوگ کیا کہیں گے؟"
"میری عزت کا کیا ہوگا؟"
"میں تمہیں اب کیسے اپناؤں؟"

یہ وہ سوالات تھے جو فرحان کے اندر چھپے کمزور مرد کو ظاہر کر گئے۔
شازیہ کو لگتا تھا وہ زندہ ہے، مگر اندر سے وہ مر چکی تھی۔

❖ وقت کا خالی پن

شازیہ کو جب گھر لایا گیا تو محلے والوں کے چہروں پر حیرت، تجسس، اور طنز تھا۔
کوئی عورت اسے کہتی، "بیٹی، ایسی جگہ کیوں گئی تھی؟"
کوئی مرد ہنستا، "اب کون اپنائے گا؟"

شازیہ کا دماغ اُس کی اپنی دشمن بن گیا۔ وہ آئینے سے ڈرتی، راتوں کو چیختی، کھانے سے پرہیز کرتی۔ کبھی دنوں تک خاموش، کبھی گھنٹوں خود سے باتیں۔ ایک دن وہ صحن میں گری ہوئی ملی — بےہوش، خالی آنکھوں کے ساتھ۔

❖ روشنی کی کرن

وہ ایک NGO میں لائی گئی۔
ابتدائی دن بہت کٹھن تھے — وہ کسی سے بات نہیں کرتی، سب پر شک کرتی۔ مگر وہاں کی ایک مشیر، زویا، خود ایک سروائیور تھی۔ اُس نے شازیہ کا ہاتھ تھاما اور کہا:

"میں بھی وہی سب کچھ جھیل چکی ہوں… لیکن آج میں تمہیں کھڑا دیکھنا چاہتی ہوں۔"

یہ جملہ شازیہ کے دل میں جیسے ایک روشنی بن کر اترا۔

❖ اندر کی جنگ

شازیہ نے تھراپی لی، مصروفیات اپنائیں، اور سب سے بڑھ کر اپنے درد کو لکھنا شروع کیا۔ وہ ہر رات ایک کاغذ پر اپنے دل کی باتیں لکھتی۔ وہ لمحے، وہ چیخیں، وہ خاموشی، وہ بےوفائی — سب کو صفحوں پر اتارتی۔

تحریر اُس کا علاج بن گئی۔

❖ ایک نئی شروعات

کئی مہینوں بعد، شازیہ ایک چھوٹی سی تقریب میں بولی۔
یہ اُس کی پہلی تقریر تھی:

"میں ٹوٹی، مگر ختم نہیں ہوئی۔ میں جلی، مگر راکھ نہیں بنی۔ اور اب میں ہر اُس لڑکی کے ساتھ کھڑی ہوں جو صرف اس لیے خاموش ہے کہ دنیا اُسے 'عزت' کے نام پر دفن کر دے۔"

تالیاں بجیں۔ کچھ آنکھیں نم ہوئیں۔
اور شازیہ کی آنکھوں میں پہلی بار اطمینان تھا۔

❖ انتقام نہیں، انقلاب

شازیہ نے NGO کے ساتھ مل کر "خاموش صدا" نامی مہم شروع کی۔ اس مہم کے ذریعے:

  • ریپ سروائیورز کی تھراپی اور قانونی مدد فراہم کی گئی۔

  • قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا گیا۔

  • خواتین کو خوداعتمادی، قانونی شعور، اور اپنی کہانی کہنے کا موقع دیا گیا۔

شازیہ اب مختلف شہروں میں سیمینارز کرتی، کالجز میں لیکچر دیتی، اور اُس چھوٹی سی بچی کو ہر روز ملتی — جو اُس دن چھت سے آواز دے کر اُسے بچا گئی تھی۔


🌟 اختتام — لیکن نئی شروعات کے ساتھ

"خاموش صدا" اب صرف ایک کتاب یا مہم نہیں…
یہ ہر اُس لڑکی کی آواز ہے جو خاموش ہے، مگر اندر سے بول رہی ہے۔
یہ اُن درندوں کے خلاف اعلان ہے جو عورت کو کمزور سمجھتے ہیں۔
اور یہ اُن مردوں کے لیے آئینہ ہے… جو محبت میں صرف خوشی بانٹنا چاہتے ہیں، غم نہیں۔

0/Post a Comment/Comments

Advertisement

73745675015091643

Advertisement


Loading...