آئینے کا قیدی
لاہور کے ایک مشہور شاپنگ مال "گلوریہ مال" میں ہر روز سینکڑوں لوگ آتے تھے۔ روشنیوں سے جگمگاتا، موسیقی کی ہلکی دھنوں سے سجا یہ مال ہر عمر کے افراد کے لیے دلکشی کا مرکز تھا۔ لیکن اس مال کے تہہ خانے میں ایک پرانا اسٹور روم تھا، جو برسوں سے بند پڑا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس بند دروازے کے پیچھے ایک خوفناک راز چھپا ہے۔
پہلا منظر
عائشہ ایک خوش مزاج، بیس سالہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ مال آئی تھی تاکہ نئی کلیکشن دیکھ سکے۔ گھومتے گھومتے وہ ایک دکان کے پاس پہنچی جو حال ہی میں کھلی تھی: "وِکٹورین اینٹیقز"۔ یہ دکان پرانی چیزوں سے بھری ہوئی تھی — پرانے فون، گراموفون، اور دیواروں پر لٹکے ہوئے عجیب و غریب آئینے۔
ایک آئینہ عائشہ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ سیاہ لکڑی کے فریم میں جڑا ہوا تھا، جس پر عجیب نقش و نگار کندہ تھے۔ اس آئینے کی سطح عام آئینے کی طرح چمکدار نہیں تھی بلکہ دھندلی اور سرمئی تھی۔ عائشہ نے اُس میں جھانکا — لیکن جو عکس اس نے دیکھا، وہ کچھ مختلف تھا۔
اس کے پیچھے کھڑی دوستیں وہاں نہیں تھیں، بلکہ ایک دھندلے، خوفناک کمرے کا منظر نظر آ رہا تھا۔ اُس منظر میں ایک سیاہ لباس میں ملبوس، چہرہ چھپائے ایک شخص کھڑا تھا جو خالی آنکھوں سے عائشہ کو گھور رہا تھا۔
"یہ کیا ہے؟" عائشہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
"چلو عائشہ، آگے چلیں!" دوستوں کی آواز نے اُسے چونکا دیا، اور وہ پلٹ گئی۔ مگر آئینہ جیسے کچھ کہہ رہا ہو... بلا رہا ہو۔
دوسرا منظر
اگلے دن عائشہ کو وہ آئینہ یاد آتا رہا۔ رات سوتے وقت بھی وہ خواب میں اُس سیاہ پوش آدمی کو دیکھتی رہی۔ ایک خواب میں، وہ دیکھتی ہے کہ وہ آئینے کے قریب جاتی ہے اور اچانک آئینے میں کھنچ جاتی ہے۔ خواب میں وہ قید ہو جاتی ہے ایک سیاہ کمرے میں، اور اُس کے سامنے وہی آدمی کھڑا ہوتا ہے، جو سرد لہجے میں کہتا ہے:
"تم نے مجھے دیکھا، اب تم میری ہو۔"
عائشہ کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ پسینے میں شرابور، وہ اُٹھ بیٹھی۔ اگلی صبح اُس نے فیصلہ کیا — وہ واپس مال جائے گی، اور اُس آئینے کو غور سے دیکھے گی۔
تیسرا منظر
اگلی شام وہ دوبارہ "وکٹورین اینٹیقز" پہنچی۔ دکان کے مالک، ایک بوڑھا شخص، نے اُسے عجیب نظروں سے دیکھا۔
"یہ آئینہ کہاں سے آیا؟" عائشہ نے پوچھا۔
بوڑھے نے کہا، "یہ آئینہ میں انگلینڈ سے لایا ہوں، پرانے قلعے سے... مگر خبردار بی بی، یہ آئینہ منحوس ہے۔ جس نے بھی اس میں زیادہ دیر دیکھا، وہ غائب ہو گیا۔"
عائشہ کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی، مگر تجسس غالب آ گیا۔ اُس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دوبارہ جھانکا۔ اچانک، ایک زوردار جھٹکا لگا اور عائشہ چیخ مار کر آئینے میں کھینچ لی گئی۔
دکان خالی ہو گئی۔ بوڑھا کانپتا ہوا "یا اللہ" پڑھتا رہ گیا۔
چوتھا منظر — آئینے کے اندر
عائشہ نے خود کو ایک پرانے محل کے کمرے میں پایا۔ اندھیرا، نم، اور بدبو دار ماحول۔ دیواروں پر خون کے دھبے اور کمرے کے بیچوں بیچ ایک کرسی پر بندھی ہوئی کوئی اور لڑکی بیہوش پڑی تھی۔
سیاہ لباس میں وہی شخص آہستہ آہستہ قریب آیا۔
"تم یہاں سے واپس نہیں جا سکتیں،" اُس نے سرگوشی کی، "یہ آئینہ میرے لیے دروازہ ہے، اور تم... تم اب میری قیدی ہو۔"
عائشہ نے چیخنا چاہا، مگر آواز نہ نکلی۔
پانچواں منظر — مال میں قتل
اگلے چند دنوں میں گلوریہ مال میں عجیب واقعات ہونے لگے۔ پہلے ایک دکاندار رات کو لاپتہ ہوا۔ پھر ایک گارڈ کا خون سے لت پت جسم واش روم سے ملا۔ دونوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، جیسے وہ کچھ خوفناک دیکھتے ہوئے مر گئے ہوں۔
CCTV فوٹیج نے ایک اور ہی ہولناک حقیقت ظاہر کی: ایک سیاہ لباس میں ملبوس شخص کو مال کے مختلف حصوں میں گھومتے دیکھا گیا — مگر وہ کبھی دروازوں سے داخل یا خارج نہیں ہوا۔ وہ اچانک نمودار ہوتا، اور اچانک غائب ہو جاتا۔
لوگ خوفزدہ ہونے لگے، مال کی انتظامیہ نے کچھ دنوں کے لیے مال بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
چھٹا منظر — آئینے کا راز
عائشہ آئینے کے اندر، محل میں قید تھی۔ مگر وہ ہار ماننے والی نہیں تھی۔ اس نے محل میں چھپے دوسرے قیدیوں کو ڈھونڈا — کئی لڑکیاں جو برسوں سے وہاں تھیں، بوڑھی ہو چکی تھیں مگر باہر وقت نہیں گزرا تھا۔ وہ سب اس خوفناک شخص "زاور" کی قیدی تھیں، جو صدیوں پہلے جادوگر تھا اور آئینے میں قید کر دیا گیا تھا۔
عائشہ نے اُن قیدیوں سے سیکھا کہ صرف ایک طریقہ ہے واپس جانے کا — آئینے کو توڑنا۔ مگر صرف وہی کر سکتا ہے جو اندر سے مکمل سچائی کے ساتھ باہر کی دنیا کو پکارے۔
ساتواں منظر — انتقام
ایک رات، جب زاوار سو رہا تھا، عائشہ نے باقی لڑکیوں کو ساتھ لیا اور آئینے کے مرکزی کمرے کی طرف دوڑی۔ سب نے مل کر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر زور سے پکارا:
"ہمیں آزاد کرو!"
دوسری طرف، دکان کا وہ بوڑھا شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ اُس نے خواب میں عائشہ کو دیکھا اور دوڑا آیا۔ اُس نے آئینے پر قرآن کی آیات پڑھنی شروع کیں۔
آئینہ چمکنے لگا، زاوار چیخا — "نہیں! یہ میرا قید خانہ ہے!"
اچانک زور دار دھماکہ ہوا، اور آئینہ ٹوٹ گیا۔
عائشہ اور باقی لڑکیاں زمین پر بے ہوش گریں۔ مال کی گارڈز نے انھیں اسپتال پہنچایا۔ جب عائشہ کو ہوش آیا، وہ اپنے گھر والوں کے درمیان تھی۔
آخری منظر
"وکٹورین اینٹیقز" ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی۔ آئینے کا فریم جلا دیا گیا۔ مگر لوگ کہتے ہیں، آئینہ مکمل تباہ نہیں ہوا۔ اس کا ایک ٹکڑا، جو کسی گودام میں پڑا ہے، اب بھی ہلکی ہلکی سرگوشیاں کرتا ہے۔
اور کوئی دن ایسا نہ ہو... جب پھر سے... وہ "زاور" آزاد ہو جائے۔


Post a Comment