ناول: "صبا کی آخری سانس:
باب اول: خاموش پگڈنڈی
شہر بدر کے مضافات میں ایک بوسیدہ عمارت تھی، جہاں نہ کھڑکیوں سے روشنی آتی تھی، نہ دلوں میں اُمید باقی تھی۔ اسی عمارت کی تیسری منزل پر ایک لڑکی رہتی تھی، جس کا نام تھا صبا حلیم۔ مگر لوگ اُسے "زری" کے نام سے جانتے تھے — بازار کی زری، راتوں کی زری، وہ زری جو جسم بیچتی تھی اور خواب چھپاتی تھی۔
صبا کی کہانی کسی افسانے کی نہیں، بلکہ ایک کچلے ہوئے سچ کی ہے۔ اُس کی ماں ایک گلوکارہ تھی، جو زندگی بھر اپنے فن کو بیچ کر عزت خریدنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ باپ کا سایہ کبھی دیکھنے کو نہ ملا۔ بچپن محرومیوں کی دہلیز پر بیتا، اور جوانی چاندنی راتوں میں بکی۔
صبا چاہتی تھی کچھ اور بننا۔ شاید ایک معلمہ، شاید ایک شاعرہ — مگر زندگی نے اُسے وہ بننے پر مجبور کیا، جو وہ کبھی خواب میں بھی نہ سوچتی۔
باب دوم: عکس میں چھپی عورت
صبا ہر رات اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی اور خود سے پوچھتی:
"کیا میں واقعی وہی ہوں جو دنیا کہتی ہے؟"
بازار کے مردوں کے لئے وہ صرف ایک جسم تھی، مگر اپنے اندر وہ ابھی بھی خود کو بچی سمجھتی تھی — وہ بچی جو اسکول جانا چاہتی تھی، جو سفید لباس میں کسی کی دلہن بننا چاہتی تھی۔
وہ ہر گاہک کے جانے کے بعد وضو کرتی، چپکے سے دعائیں مانگتی:
"یا اللہ! ایک بار موقع دے، میں سب کچھ چھوڑ دوں گی۔"
لیکن تقدیر نے اُسے وقت نہیں دیا۔
باب سوم: روشنی کا دروازہ
ایک دن، صبا کے پاس ایک اجنبی آیا۔ وہ کوئی عام گاہک نہ تھا۔ نام تھا ایلان یوسف۔ اُس کی آنکھوں میں ٹھہراؤ تھا، باتوں میں مٹھاس۔ اُس نے صبا کے ساتھ وقت گزارا، مگر بغیر کسی جسمانی تعلق کے۔ بس باتیں کیں، شعر سنائے، اور پوچھا:
"تم یہاں کیوں ہو؟"
صبا حیران ہوئی۔ کسی نے کبھی یہ سوال نہیں کیا تھا۔ وہ خاموش رہی۔ اور ایلان نے صرف اتنا کہا:
"جب تم چاہو، میرے ساتھ نئی زندگی شروع کر سکتی ہو۔ میں تمہیں تمہاری مرضی کی عزت دوں گا۔"
صبا کی آنکھیں بھر آئیں۔ کیا واقعی یہ ممکن ہے؟
باب چہارم: ایک نئی راہ
صبا نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ کوٹھے کی زنجیروں کو توڑ کر وہ ایلان کے ساتھ چلی گئی۔ اُس نے سادہ لباس پہنا، قرآن پڑھنا دوبارہ شروع کیا، اور ایک چھوٹے سے مکتب میں پڑھانے لگی۔ محلے کی عورتیں اُسے پسند کرنے لگیں، بچوں کو اُس کی باتیں اچھی لگتیں۔
مگر عزت کا راستہ کانٹوں بھرا تھا۔
ایلان کے گھر والوں نے صبا کا ماضی جان کر اُس سے نفرت کی۔ ماں نے کہا:
"ہم اپنے خاندان میں ایک بدنام عورت کو نہیں لا سکتے!"
ایلان نے پہلے ساتھ دینے کی قسم کھائی، مگر آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں میں بھی شک اتر آیا۔
صبا خاموش ہو گئی۔ وہ دوبارہ تنہا ہو گئی۔
باب پنجم: در و دیوار کی گواہی
صبا نے خود کو دوبارہ معاشرے میں منوانے کی کوشش کی۔ ایک دستکاری مرکز میں کام شروع کیا۔ عورتوں کو سلائی کڑھائی سکھانے لگی۔ مگر پھر محلے کی ایک عورت نے اُس کا ماضی بھانپ لیا۔
"یہ وہی زری ہے، جو بازار میں تھی!"
چند دنوں میں صبا پر تھو تھو ہونے لگی۔ لوگ اُس کی نگاہوں سے کترانے لگے۔ بچے اُس کے قریب آنے سے ڈرنے لگے۔
اُس نے مکتب چھوڑ دیا، دستکاری سنٹر چھوڑ دیا، اور بالآخر خاموشی سے اپنے چھوٹے سے کمرے میں قید ہو گئی۔
باب ششم: سانسوں کا آخری لمحہ
ایک شام، جب شہر کی گلیوں میں معمول کی ہلچل تھی، صبا نے ایک سفید کپڑے میں لپٹا ہوا پیکٹ کھولا۔ وہ زہر تھا۔
مرنے سے پہلے اُس نے ایک خط لکھا:
"میں نے تم سب کو معاف کیا۔ میں نے خود کو نہیں بخشا، کیوں کہ میں نے جینے کی جسارت کی۔ میں بس عورت بننا چاہتی تھی، بیوی، ماں، دوست، معلمہ۔ مگر تم نے صرف میری راتوں کی روشنی دیکھی، میرے اندر کی اندھیری چیخیں نہیں سنیں۔ مجھے دفن کرتے وقت میرے چہرے کو مت دیکھنا — اُس پر صرف خاموش سوال لکھے ہوں گے۔"
صبح جب لوگ اُس کے کمرے میں آئے، وہاں ایک خاموش جسم تھا، اور ایک لاش جس پر معاشرے کے زخم لکھے تھے۔
اختتامیہ: ایک نامکمل دعا
صبا کی قبر پر کوئی پھول نہیں رکھتا۔ وہاں صرف ایک کتبہ ہے:
"یہاں وہ دفن ہے جو صرف ایک موقع چاہتی تھی۔"


Post a Comment