FmD4FRX3FmXvDZXvGZT3FRFgNBP1w326w3z1NBMhNV5=
items

"خونِ محبت: دو بھائی، ایک عشق، ایک انجام"

عنوان: "محبت کا خوں"

گاؤں "نور پور" کی ہوائیں عام طور پر ساکت ہوا کرتی تھیں، جیسے صدیوں سے کوئی راز ان میں دفن ہو۔ اس گاؤں میں ایک خاندان رہتا تھا — حاجی امانت علی کا خاندان۔ ان کے دو بیٹے تھے، فہد اور وقاص۔ فہد بڑا اور سنجیدہ مزاج کا تھا، جبکہ وقاص شوخ و چنچل، دل پھینک اور ہر دل عزیز لڑکا تھا۔

فہد نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا۔ کھیتوں کی دیکھ بھال، جانوروں کا خیال، گاؤں کے بزرگوں کی عزت — سب کچھ اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ دوسری طرف، وقاص کالج کا اسٹوڈنٹ تھا اور ہر وقت دوستوں میں گھرا رہتا۔



زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی، جب اچانک ایک دن گاؤں کے کونے میں نئی آمد کا شور مچ گیا۔ ریحانہ بی بی، جو بیس سال پہلے گاؤں چھوڑ گئی تھیں، اب اپنی بیٹی انوشہ کے ساتھ واپس آ گئی تھیں۔ انوشہ، جو لاہور سے تعلیم مکمل کر کے آئی تھی، جیسے گاؤں کے منظر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کی سادگی میں کشش تھی، آنکھوں میں معصومیت اور مسکراہٹ میں جادو۔

فہد نے پہلی بار انوشہ کو مسجد کے باہر پانی بھرتے دیکھا۔ اس کا دل دھڑک اٹھا، مگر وہ اپنی فطرت کے مطابق خاموش رہا۔ وہ اپنے جذبات کو دل میں دفن کر کے صرف دور سے اسے دیکھتا رہا۔ وقاص نے بھی انوشہ کو کالج جاتے ہوئے دیکھا تو اس کی طبیعت میں سنجیدگی آ گئی۔ پہلی بار دل میں کچھ خاص محسوس ہوا۔

اب قسمت کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔


محبت کا آغاز

وقاص نے جلد ہی انوشہ سے دوستی کا بہانہ بنا لیا۔ ایک دن گاؤں کے کتب خانے میں وہ انوشہ کے قریب پہنچا، "آپ کو مدد چاہیے تھی نا سوشیالوجی کی کتاب کے بارے میں؟"

انوشہ نے حیرت سے اسے دیکھا، "جی... آپ کیسے جانتے ہیں؟"

"مجھے سب پتہ ہوتا ہے،" وقاص نے شوخی سے جواب دیا۔

دھیرے دھیرے انوشہ اور وقاص میں بات چیت شروع ہو گئی، اور کچھ ہفتوں میں دوستی محبت میں بدلنے لگی۔ فہد اس سب سے بے خبر، خاموشی سے انوشہ کے ہر سائے کا پیچھا کرتا، گاؤں کے راستوں پر اس کے قدموں کے نشان دیکھتا، اور راتوں کو اس کا تصور لے کر جاگتا۔

ایک دن اماں نے فہد سے پوچھا، "بیٹا، تمھاری عمر ہو گئی ہے، کوئی پسند ہے؟"

فہد نے جھجکتے ہوئے انوشہ کا نام لیا۔ اماں چونکیں، "مگر بیٹا، وقاص بھی...!"

بات ادھوری رہ گئی، لیکن فہد کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔


سچائی کا انکشاف

فہد نے اس رات بھائی کے کمرے میں جا کر سیدھے الفاظ میں پوچھا، "کیا تم انوشہ سے محبت کرتے ہو؟"

وقاص چونکا، پھر ہنسا، "ہاں بھائی، محبت کرتا ہوں۔ اور سچ کہوں تو جلدی ہی رشتہ بھی بھیجنے والا ہوں۔"

فہد کو جیسے زمین کھا گئی۔ وہ بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گیا۔ اگلے دن وہ تنہا مسجد گیا، رب سے دل کا بوجھ ہلکا کرنے، مگر دل اور بھاری ہو گیا۔

چند دن بعد گاؤں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ انوشہ اور وقاص اکثر ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔ فہد کا دل ٹوٹ گیا، مگر اس نے وقاص سے بات نہ کی۔


خون میں بھیگتی رات

ایک رات گاؤں کے باہر آموں کے باغ میں، فہد وقاص کو تنہا ملا۔ دونوں بھائیوں میں بحث شروع ہوئی۔

فہد: "وقاص، تم جانتے تھے کہ میں انوشہ سے محبت کرتا ہوں۔"

وقاص (غصے سے): "محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ حق بھی تمھارا ہے۔ انوشہ مجھ سے محبت کرتی ہے، تم سے نہیں۔"

فہد (نم آنکھوں سے): "محبت میں حق نہیں، احساس ہوتا ہے۔ مگر تم نے میرا جذبات روند دیے۔"

بحث شدت اختیار کر گئی۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں آگ تھی۔ وہ بات جو بھائیوں کے بیچ صرف گفتگو سے حل ہو سکتی تھی، اب ہاتھا پائی میں بدل گئی۔

وقاص نے غصے میں ایک دھکا دیا، فہد نے جواباً لات ماری۔ اسی دھکم پیل میں فہد کا ہاتھ باغ میں پڑے پتھر پر جا پہنچا، اور ایک لمحے کی جھنجھٹ میں، پتھر وقاص کے سر پر پڑا۔

خاموشی چھا گئی۔

وقاص زمین پر گرا، اور اس کی آنکھوں کی چمک بجھ گئی۔

فہد ششدر کھڑا تھا۔ اسے یقین نہ آیا کہ یہ سب اس کے ہاتھوں ہو گیا۔





انجام کی گھڑی

فہد نے وقاص کو اسپتال لے جانے کی کوشش کی، مگر دیر ہو چکی تھی۔ گاؤں والوں نے شور مچایا، پولیس آئی، اور فہد کو گرفتار کر لیا گیا۔

عدالت میں فہد نے کہا:
"میں نے اسے مارنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ وہ میرا بھائی تھا۔ میں صرف اپنی محبت کا درد سمجھانا چاہتا تھا، نہ کہ اس کا خون بہانا۔"

عدالت نے اسے غیر ارادی قتل کے تحت دس سال قید کی سزا دی۔

انوشہ گاؤں چھوڑ کر واپس لاہور چلی گئی، کبھی کسی سے رابطہ نہ کیا۔ ریحانہ بی بی صدمے سے چند مہینوں میں دنیا چھوڑ گئیں۔

حاجی امانت علی کے سر کے بال سفید اور دل خالی ہو گیا۔ دو بیٹے — ایک قبر میں، دوسرا جیل




دس سال بعد

فہد جیل سے واپس آیا۔ اس کے ہاتھ میں قرآن تھا، آنکھوں میں سکون اور دل میں ندامت۔ گاؤں بدل چکا تھا، مگر وہ آموں کا باغ وہیں تھا جہاں بھائی کا خون بہا تھا۔

وہ ہر جمعرات وقاص کی قبر پر جاتا، بیٹھتا، دعائیں مانگتا، اور آنکھیں بند کر کے بس یہی کہتا:

"محبت کبھی خون مانگے تو وہ محبت نہیں، مرض ہے۔"


اختتام

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت میں اگر برداشت اور قربانی نہ ہو، تو وہ صرف خود غرضی رہ جاتی ہے۔ بھائی بھائی کا قاتل بن جائے تو صرف ایک دل نہیں ٹوٹتا، پورا خاندان بکھر جاتا ہے۔


0/Post a Comment/Comments

Advertisement

73745675015091643

Advertisement


Loading...