FmD4FRX3FmXvDZXvGZT3FRFgNBP1w326w3z1NBMhNV5=
items

“سرحد کے اُس پار: ایک ماں کی جنگ”

 رات کا سناٹا تھا، بادلوں کی گرج سنائی دے رہی تھی اور دور کہیں بجلی چمک رہی تھی۔ صائمہ نے اپنے تین بچوں کو گود میں بھر کر زور سے سینے سے لگایا۔ دل میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، لیکن آنکھوں میں صرف ایک ہی عزم تھا: “میری اولاد بچ جائے، چاہے میری جان چلی جائے۔”

صائمہ کا شوہر، جبران، گاؤں کا ایماندار اور نیک دل کسان تھا۔ وہ زمین دار زاہد خان کے سامنے کبھی نہ جھکا، جو گاؤں کی غریب زمینوں پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ جبران نے جب زاہد خان کی لالچ کے خلاف آواز اٹھائی، تو وہ زاہد خان کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا۔



ایک رات جب صائمہ کھانے کی تیاری کر رہی تھی، باہر سے چیخنے کی آواز آئی۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی، تو دیکھا کہ لوگ جبران کی لاش کے ارد گرد کھڑے ہیں۔ زاہد خان کے آدمیوں نے جبران کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔

صائمہ کی دنیا اندھیر ہو گئی، مگر سب سے زیادہ اس کا دل اس وقت کانپا جب گاؤں کے ایک بزرگ نے آ کر سرگوشی میں کہا، “بیٹی! وہ صرف جبران پر نہیں رکے، اب تمہارے بچوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی ان کا وارث نہ بچے۔”

وہ رات صائمہ نے ایک پل کے لیے بھی نیند نہیں کی۔ تینوں بچے، چھوٹا معیز، درمیانی عمر کی حنا، اور سب سے بڑی آیان، اسے معصوم نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ اگلی صبح اس نے فیصلہ کر لیا: اسے سرحد پار جانا ہوگا۔


خطرناک سفر کا آغاز

صائمہ نے چند کپڑے، بچوں کے اسکول کے سرٹیفیکیٹ، اور جبران کی تصویر ایک پرانے کپڑے میں لپیٹ کر باندھی۔ ایک ہمسایہ جو اس کے دکھ کو سمجھتا تھا، اس نے بتایا کہ قریبی جنگل سے گزر کر سرحد تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن وہاں خاردار باڑ اور فوجی پہرہ ہے۔

اندھیری رات میں جب پورا گاؤں سو رہا تھا، صائمہ بچوں کا ہاتھ پکڑ کر نکلی۔ معیز نے روتے ہوئے کہا، “امی! ہم کہاں جا رہے ہیں؟” صائمہ نے اسے گلے لگا کر کہا، “بیٹا، ہم ایک ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں کوئی ہمیں ڈرا نہیں سکے گا۔”

راستہ کٹھن تھا۔ کانٹوں سے بھرے راستے، جنگلی جانوروں کی آوازیں، اور پیروں میں چبھتے پتھر۔ آیان تھک کر بار بار بیٹھ جاتی، حنا کے پیروں میں خون نکل آیا، اور معیز ماں کی گود میں سونے کی ضد کرنے لگا۔ مگر صائمہ کی ہمت ایک لمحے کو بھی نہ ٹوٹی۔


پہلا سامنا

جب وہ سرحد کے قریب پہنچے، دور سے ٹارچ کی روشنی چمک رہی تھی۔ یہ زاہد خان کے آدمی تھے جو ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ صائمہ نے بچوں کو ایک جھاڑی کے پیچھے چھپایا اور خود جھاڑیوں میں دبک گئی۔

زاہد کے آدمی قریب آ کر زور زور سے بول رہے تھے، “وہ عورت زیادہ دور نہیں جا سکتی۔ بچوں کے ساتھ بھاگی ہے، کچھ دیر میں پکڑ لیں گے!”

صائمہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، لیکن اس نے بچوں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں خاموش کرایا۔ گھنٹوں وہ وہاں چھپی رہی، جب تک کہ زاہد کے آدمی تھک ہار کر واپس نہ لوٹ گئے۔


سرحد کی باڑ

آدھی رات گزر چکی تھی جب وہ سرحد کی باڑ تک پہنچے۔ باڑ کے اس پار ایک نئی دنیا، ایک نئی امید تھی، مگر باڑ اونچی تھی، اور خاردار تاروں نے راستہ بند کر رکھا تھا۔

صائمہ نے بچوں کو چھپایا اور باڑ کو غور سے دیکھا۔ دور ایک جگہ کچھ خاردار تار کھلے ہوئے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ جلدی نہ کرے تو صبح ہونے سے پہلے فوجی دستے پہنچ جائیں گے۔

اس نے اپنی چادر اتاری، کانٹوں پر ڈال دی، اور سب سے پہلے آیان کو پار کرایا۔ آیان ڈرتے ڈرتے چادر پر چڑھی اور دوسری طرف کود گئی۔ پھر حنا، جو رو رہی تھی، مگر ماں کی حوصلہ افزائی سے ہمت کر گئی۔ آخر میں معیز، جو سب سے چھوٹا تھا، صائمہ کی گود میں تھا۔

جب سب بچے پار ہو گئے، صائمہ خود چڑھنے لگی، مگر ایک کانٹا اس کے پیر میں اٹک گیا۔ اس نے دانت بھینچے، خون کی پروا نہ کی، اور زور لگا کر دوسری طرف کود گئی۔


نئی زمین پر

دوسری طرف پہنچ کر وہ سب زمین پر گر گئے۔ صائمہ کی سانس پھولی ہوئی تھی، مگر آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ابھی وہ خوشی منا ہی رہی تھی کہ سرحدی فوجیوں کی آوازیں سنائی دیں۔

“رک جاؤ! کون ہو تم؟”

صائمہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا، “ہم مہاجر ہیں، مہاجر! بچوں کی خاطر بھاگے ہیں۔ خدا کے واسطے، ہمیں پناہ دو۔”

فوجی نزدیک آئے، ان کے چہروں پر سختی تھی، مگر بچوں کو دیکھ کر ان کی نظروں میں نرمی اتر آئی۔ ایک فوجی نے کہا، “بی بی، تمہیں پناہ تو ملے گی، مگر پہلے ہمیں جانچ کرنی ہوگی۔”



پناہ گزین کیمپ کی زندگی


چند گھنٹوں بعد وہ ایک پناہ گزین کیمپ میں پہنچا دیے گئے۔ وہاں صائمہ نے پہلی بار سکون کی سانس لی۔ بچوں کے زخموں پر مرہم لگائی گئی، انہیں کھانا دیا گیا، اور ایک خیمہ دیا گیا۔

مگر صائمہ کی مشکلات یہاں ختم نہ ہوئیں۔ کیمپ میں ہزاروں مہاجرین تھے، اور ہر کوئی اپنے زخموں کا نوحہ سنا رہا تھا۔ صائمہ نے اپنے بچوں کے لیے کام ڈھونڈا، کپڑے دھوئے، برتن مانجے، اور سلائی کا کام کیا۔

آیان نے ایک دن ماں سے کہا، “امی، ابو کی زمین کا کیا ہوگا؟”
صائمہ نے آنکھیں پونچھ کر کہا، “بیٹی، زمین تو ظالموں نے چھین لی، مگر ہماری عزت، ہماری غیرت، اور تم لوگوں کی جانیں بچ گئیں، یہ سب سے بڑی دولت ہے۔”


انجام: نئی امید

کچھ مہینوں بعد ایک مقامی فلاحی ادارے نے صائمہ کو مستقل رہائش کا بندوبست کر دیا۔ بچوں کو اسکول میں داخلہ مل گیا، اور صائمہ کو سلائی کا مستقل کام مل گیا۔ اس کے ہاتھوں کی محنت نے اسے ایک نئی پہچان دی۔

رات کو جب وہ بچوں کو سلاتی، تو جبران کی تصویر نکال کر اسے دیکھتی اور آہستہ سے کہتی، “دیکھو جبران، میں نے تمہاری امانت بچا لی۔”

صائمہ کے اندر کی ماں جیت گئی تھی — وہ ماں جو ظلم کے سامنے نہیں جھکی، جو کانٹوں پر چلی، جو سرحد پار کر گئی، صرف اپنی اولاد کو بچانے کے لیے۔


آخری منظر

ایک شام کیمپ کے باہر سورج ڈوب رہا تھا۔ صائمہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی، دور آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ آیان نے ماں سے کہا، “امی، کیا ہم کبھی اپنے گاؤں لوٹیں گے؟”

صائمہ نے ایک لمبی سانس لی، معیز کو گود میں اٹھایا، اور کہا، “شاید ایک دن، جب ظلم ختم ہو جائے۔ تب تک ہم یہیں رہیں گے، کیونکہ اب تمہاری ماں ایک نئی جنگ لڑ رہی ہے — تم لوگوں کو پڑھا لکھا کر ایک نئی دنیا دینا۔”


0/Post a Comment/Comments

Advertisement

73745675015091643

Advertisement


Loading...