عنوان: بچھڑی بہنیں
سردیوں کی شام تھی، ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ لاہور کی مصروف گلیوں میں ایک کیفے کے اندر چار نوجوان لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ چاروں کے چہرے ایک دوسرے کو بغور دیکھ رہے تھے، جیسے ماضی کی کوئی بھولی بسری یادیں ان کے ذہنوں میں تازہ ہو رہی ہوں۔
بچھڑنے کی کہانی
یہ کہانی بیس سال پہلے کے ایک اندوہناک واقعے سے شروع ہوتی ہے۔ سارہ، زینب، مریم اور نور چار سگی بہنیں تھیں، جو ایک خوشحال مگر سادہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے والدین محبت کرنے والے تھے، لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن، جب وہ سب ایک میلے میں گئے، قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ چاروں بہنیں ایک دوسرے سے بچھڑ گئیں۔ وہ حادثہ ایک ہنگامے کی صورت میں آیا، جہاں دھکم پیل میں چاروں بچیاں الگ الگ سمتوں میں بہہ گئیں۔ کسی کو کسی کا پتہ نہ چل سکا۔ ان کے والدین نے بہت تلاش کیا، اشتہارات دیے، لوگوں سے مدد مانگی، لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ چاروں بہنیں اجنبی ہاتھوں میں چلی گئیں، اور یوں ان کی تقدیر بدل گئی۔

بچھڑنے کے بعد کی زندگی
ہر بہن کی زندگی ایک مختلف راہ پر چل نکلی۔ سارہ کو ایک بے اولاد جوڑے نے گود لے لیا، جو اسے لندن لے گئے۔ وہاں اسے بہت پیار ملا، لیکن ہمیشہ دل میں ایک انجانی اداسی رہی۔ زینب کو ایک یتیم خانے میں داخل کر دیا گیا، جہاں سے ایک نیک دل خاندان نے اسے اپنالیا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار لڑکی تھی، جس نے ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کا عزم کیا۔ مریم کو ایک مزدور نے پال پوس کر بڑا کیا، اس نے زندگی کے سخت حالات کو قریب سے دیکھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ بعد میں ایک ماہر نفسیات بنی تاکہ دوسروں کے دکھ درد بانٹ سکے۔ نور کو ایک خیراتی ادارے میں چھوڑ دیا گیا، جہاں اس نے خود اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور آگے جا کر ایک کامیاب ڈاکٹر بن گئی۔
تقدیر کا کھیل
وقت گزرتا گیا، لیکن چاروں بہنوں کے دلوں میں ہمیشہ یہ سوال رہا کہ ان کا اصل خاندان کون تھا؟ ایک انجانا سا خلاء ہر وقت ان کے دلوں میں رہتا تھا، جیسے کچھ کھو چکا ہو۔ وہ تصویروں کو دیکھ کر سوچتی رہتیں، دعائیں کرتیں، اور کسی معجزے کی امید رکھتی رہیں۔
اتفاقیہ ملاقات
وقت نے ایک بار پھر اپنا رنگ دکھایا۔ ایک مشہور تعلیمی سیمینار میں، جو لاہور کے ایک معروف یونیورسٹی میں ہو رہا تھا، چاروں بہنیں موجود تھیں۔ سب نے اپنی اپنی زندگیاں سنوار لی تھیں۔ سارہ ایک مصنفہ تھی، زینب ایک سماجی کارکن، مریم ایک ماہر نفسیات، اور نور ایک ڈاکٹر بن چکی تھی۔
وہ سب جب کیفے میں بیٹھی تھیں تو انہیں ایک دوسرے کے چہرے کچھ شناسا لگے۔ پہلے تو انہوں نے اسے محض اتفاق سمجھا، مگر جب بات چیت آگے بڑھی، یادوں کے دریچے کھلنے لگے۔ بچپن کے چند لمحے، کچھ الفاظ، کچھ واقعات— ہر ایک کی یادیں جُڑنے لگیں۔
جذباتی لمحہ
ایک پل ایسا آیا جب نور کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، "کیا تم سب کا بھی ایک بار میلے میں بچھڑنے کا واقعہ ہے؟" یہ سوال سب کو جیسے ماضی میں لے گیا۔ سارہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، "ہمارے والد کا نام ریاض تھا، اور ماں کا نام عائشہ؟" مریم کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ گیا۔ "ہاں! ہاں! وہی!" زینب نے بے اختیار نور کو گلے لگا لیا۔
وہ لمحہ ایسا تھا کہ کیفے میں بیٹھے باقی لوگ بھی جذباتی ہو گئے۔ چاروں بہنیں ایک دوسرے سے لپٹ گئیں، آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔ بیس سال کی جدائی کا درد اور خوشی ایک ساتھ امڈ آئی تھی۔ وہ لمحے بے انتہا جذباتی تھے۔ آس پاس کے لوگ بھی یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ وہ لمحہ ان کی زندگی کا سب سے اہم لمحہ بن گیا، ایک خواب جو حقیقت میں بدل چکا تھا
نئی زندگی
وہ لمحہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ تمام وہاں موجود لوگوں کے لیے ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ اب انہیں اپنی کھوئی ہوئی پہچان مل چکی تھی۔ چاروں نے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا، اپنے والدین کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، اور یوں قسمت کا بچھڑایا ہوا رشتہ ایک بار پھر جُڑ گیا۔
وہ اپنے والدین کی تلاش میں نکلیں، مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنے لگیں، پرانے اخباروں میں دیے گئے اشتہارات دیکھے، اور آخر کار ایک دن انہیں اپنے والدین کا پتہ چل گیا۔ ان کے ماں باپ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہ رہے تھے، بوڑھے ہو چکے تھے، لیکن امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ جیسے ہی بہنیں اپنے والدین سے ملنے گئیں، وہ منظر ناقابلِ بیان تھا۔ ماں نے بیٹیوں کو دیکھتے ہی سینے سے لگا لیا، والد کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر تھا۔ پورا محلہ ان کے ملنے کی خوشی میں شریک ہو گیا۔
یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تقدیر چاہے جیسے بھی پلٹے کھائے، جو رشتے سچے اور خالص ہوتے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح ایک بار پھر آپس میں جُڑ ہی جاتے ہیں۔

Post a Comment