ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں دو بھائی، احمد اور سلیم، اپنے والد کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے مالک تھے۔ ان کے والد، حاجی کریم بخش، ایک ایماندار اور محنتی انسان تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی محنت کر کے زمینیں، ایک بڑا مکان اور کچھ دکانیں بنائی تھیں۔ وہ ہمیشہ اپنے بیٹوں کو اتفاق اور محبت کا درس دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد بھائیوں کے درمیان وہی جائیداد نفرت اور دشمنی کی دیوار بن گئی۔
بچپن کا پیار اور جوانی کی تلخیاں
احمد بڑا بھائی تھا، جو والد کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا، جبکہ سلیم چھوٹا تھا اور تعلیم میں دلچسپی رکھتا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد جب جائیداد کی تقسیم کی بات آئی تو احمد کا خیال تھا کہ چونکہ اس نے والد کے ساتھ کاروبار میں زیادہ وقت گزارا اور زمین کی دیکھ بھال کی، اس لیے اسے زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ دوسری طرف سلیم کا موقف تھا کہ والد نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو زیادہ یا کم کا فرق نہیں دیا، تو اب بھی جائیداد برابر تقسیم ہونی چاہیے
۔
خاندان میں دراڑ
دونوں بھائیوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں۔ ماں، جو ابھی زندہ تھی، بار بار بیٹوں کو سمجھاتی رہی کہ جائیداد کے پیچھے رشتے خراب نہ کریں، مگر احمد اور سلیم میں سے کوئی ماننے کو تیار نہ تھا۔ گاؤں کے بزرگوں نے بھی کئی بار صلح کرانے کی کوشش کی، مگر جب ضد اور لالچ دل میں گھر کر جائے تو سمجھداری کی کوئی جگہ نہیں بچتی۔
عدالت کا دروازہ
جب بات زیادہ بگڑ گئی تو سلیم نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس کے اس قدم سے احمد کو شدید غصہ آیا اور اس نے بھی وکیل کر لیا۔ بھائی بھائی کے خلاف عدالت میں کھڑے ہوگئے۔ گواہوں کے بیانات، زمین کے کاغذات اور والد کی لکھی ہوئی وصیت سب عدالت میں پیش کیے گئے۔ مقدمہ لمبا چلتا رہا، دونوں بھائیوں نے لاکھوں روپے وکیلوں پر خرچ کر دیے، مگر جائیداد کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
دھوکہ اور نقصان
ایک دن احمد نے سوچا کہ وہ سلیم سے پہلے زمین بیچ کر اس کا حق ختم کر دے گا۔ اس نے چپکے سے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے زمین کا سودا طے کر لیا۔ جب سلیم کو اس کی خبر ملی تو وہ تیزی سے عدالت پہنچا اور عدالت نے فوری طور پر زمین کی فروخت پر پابندی لگا دی۔
اسی دوران، جائیداد کے جھگڑے میں ایک تیسرا شخص بھی داخل ہو گیا—ایک قریبی رشتہ دار جو دونوں بھائیوں کے جھگڑے کا فائدہ اٹھا کر خود زمین ہتھیانا چاہتا تھا۔ اس نے دونوں بھائیوں کو مزید بھڑکایا اور دونوں کے درمیان دشمنی مزید بڑھا دی
۔
ماں کی موت اور حقیقت کا ادراک
ایک دن جب دونوں بھائی عدالت میں مقدمہ لڑ رہے تھے، گھر میں ان کی ماں کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسی۔ جب تک دونوں بھائی عدالت سے گھر پہنچے، ماں کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ان کی ماں کا آخری جملہ یہی تھا:
"میں تم دونوں کے جھگڑوں کے سبب مر رہی ہوں۔ جائیداد کے پیچھے اپنی ماں کو بھی بھول گئے؟"
یہ سنتے ہی دونوں بھائیوں کے دل دہل گئے۔ وہ سوچنے لگے کہ زمین اور مکان کے پیچھے وہ ماں کا دکھ بھی نہ دیکھ سکے، نہ اس کی خدمت کر سکے، نہ اس کے آخری لمحات میں اس کے قریب رہ سکے۔
صلح اور نئی شروعات
ماں کی موت کے بعد دونوں بھائیوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا۔ احمد اور سلیم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور جذباتی ہو کر گلے لگ گئے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عدالت کے چکر چھوڑ کر آپس میں بیٹھ کر جائیداد کی تقسیم کریں گے۔
چند دن بعد، دونوں نے اپنی جائیداد برابر بانٹ لی اور جو دکانیں اور مکان تھے، انہیں مل کر چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد وہ پہلے کی طرح بھائی بھائی بن گئے۔
نتیجہ
یہ کہانی اس سبق کی عکاسی کرتی ہے کہ جائیداد اور دولت کے پیچھے رشتے برباد نہیں کرنے چاہئیں۔ بعض اوقات ہم مال و دولت کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، مگر جب احساس ہوتا ہے، تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اگر احمد اور سلیم کو یہ احساس پہلے ہو جاتا تو شاید ان کی ماں زندہ ہوتی اور انہیں اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔


Post a Comment