عنوان: قبرستان کی خوفناک کہانی
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ آسمان پر چمکتا چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ رہا تھا، جیسے کسی خوف سے کانپ رہا ہو۔ تیز ہوا کے جھونکے درختوں کی شاخوں کو ہلا رہے تھے اور سنسان قبرستان میں سنسناہٹ پیدا ہو رہی تھی۔
یہ قبرستان صدیوں پرانا تھا، جہاں کی مٹی میں لاتعداد راز دفن تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہاں رات کو عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں، جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو یا آہ بھرتا ہو۔ کئی بہادر لوگ یہاں قدم رکھنے کی ہمت کر چکے تھے، مگر کوئی واپس نہیں لوٹا۔
ایک رات، ایک نوجوان صحافی، عدیل، اس قبرستان کی حقیقت جاننے کے لیے وہاں جا پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ اور ایک کیمرہ تھا۔ وہ ہر قبر کو غور سے دیکھتا، ان پر لکھے نام پڑھتا اور ان کی تصاویر لیتا۔ اچانک اسے ایک پرانی، شکستہ قبر نظر آئی جس پر کوئی نام درج نہیں تھا، بس ایک تحریر کندہ تھی: "یہاں وہ دفن ہے جو واپس آ سکتا ہے۔"
عدیل نے ٹارچ کی روشنی اس قبر پر ڈالی تو اسے محسوس ہوا کہ مٹی حرکت کر رہی ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، مگر وہ ہمت کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ جیسے ہی اس نے قبر کو چھوا، زمین لرز اٹھی اور ایک بھیانک چیخ گونجی۔ عدیل کے ہاتھ سے کیمرہ گر گیا اور وہ پیچھے ہٹنے لگا، مگر کوئی نادیدہ قوت اسے اپنی طرف کھینچنے لگی۔
اچانک قبر کی مٹی میں ایک خونی ہاتھ نمودار ہوا، جس کی انگلیاں خاردار اور لمبی تھیں۔ عدیل چیخ اٹھا اور بھاگنے کی کوشش کی، مگر اس کے قدم زمین میں دھنسنے لگے۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اسے قبر کے اندر کھینچ رہا ہو۔ عدیل نے بمشکل خود کو آزاد کروایا اور تیزی سے بھاگا، مگر قبرستان کی فضا میں ایک زوردار قہقہہ گونجا۔
اچانک ہوا میں ایک دھند سی چھا گئی اور اس دھند میں ایک انسانی شبیہ نمودار ہوئی۔ وہ ایک لمبے قد کا شخص تھا، جس کی آنکھوں میں سرخ چمک تھی اور چہرہ سفید، جیسے زندگی کی کوئی رمق نہ ہو۔ عدیل نے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی اور کیمرہ اٹھایا۔ جیسے ہی اس نے تصویر کھینچنی چاہی، وہ شبیہ ایک جھٹکے سے اس کے قریب آ گئی اور ایک تیز چیخ ماری۔
عدیل کو محسوس ہوا جیسے وہ آواز اس کے دماغ میں گونج رہی ہو۔ اس نے جلدی سے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، مگر اچانک زمین نے اس کے قدم جکڑ لیے۔ ایک پراسرار سرگوشی اس کے کانوں میں گونجنے لگی: "تم نے ہمیں جگا دیا ہے، اب
تم نہیں بچ سکو گے۔"
عدیل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ خود کو ایک تاریک سرنگ میں محسوس کر رہا تھا، جہاں دیواروں پر عجیب و غریب علامات کندہ تھیں۔ ہر طرف سایہ دار مخلوقیں سرگوشیاں کر رہی تھیں، ان کے چہرے انسانی نہیں تھے۔ عدیل کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں، مگر وہ ہمت کرتے ہوئے آگے بڑھا۔
اچانک اس نے ایک کمرہ دیکھا، جس کے دروازے پر وہی تحریر کندہ تھی جو قبر پر تھی: "یہاں وہ دفن ہے جو واپس آ سکتا ہے۔" عدیل نے دروازہ کھولا تو اندر ایک پرانی میز اور کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ کتابوں کے صفحات زرد پڑ چکے تھے، مگر ان پر لکھی تحریریں اب بھی واضح تھیں۔ ان میں قدیم طلسمی الفاظ درج تھے، جو شاید کسی شیطانی قوت کو جگانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔
عدیل نے ایک کتاب کھولی، مگر جیسے ہی اس نے پڑھنے کی کوشش کی، کمرے میں موجود چراغ خود بخود بجھ گئے۔ اندھیرے میں اسے کسی کی سرگوشی سنائی دی: "اب تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔"
عدیل نے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر اس کے پیچھے وہی لمبے قد والا شخص کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ بڑھنے لگے، اور عدیل کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو۔ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا، اور عدیل کو اپنے جسم میں ایک شدید جھٹکا محسوس ہوا۔
جب اس نے آنکھیں کھولیں، تو وہ قبرستان کے دروازے پر پڑا تھا۔ اس کا کیمرہ پاس تھا، مگر اس میں کوئی تصویر موجود نہیں تھی۔ عدیل نے اپنے کپڑوں پر نظر ڈالی، تو ان پر مٹی کے نشان تھے، جیسے وہ حقیقت میں قبر سے نکلا ہو۔
اگلے دن عدیل نے اپنے دوست کو ساری بات بتائی، مگر جب اس نے کیمرہ کھولا، تو تمام تصویریں غائب تھیں، سوائے آخری تصویر کے، جس میں اب ایک نئی عبارت لکھی تھی: "تم بچ نہیں سکتے۔"
عدیل کی زندگی اس دن کے بعد بدل گئی۔ وہ راتوں کو خوفزدہ خواب دیکھتا، سائے دیکھتا، سرگوشیاں سنتا۔ ایک دن وہ اپنے کمرے میں تھا، جب اچانک لائٹ بند ہو گئی۔ جیسے ہی اس نے موبائل کی روشنی آن کی، سامنے وہی سرخ آنکھوں والا چہرہ کھڑا تھا۔
عدیل کی چیخ گونجی، اور اچانک کمرے کی کھڑکیاں زور زور سے بجنے لگیں۔ اس نے دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، مگر دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ ایک بھیانک آواز گونجی: "تم نے ہمیں جگایا ہے، اب تمہیں ہمارے ساتھ آنا ہوگا۔"
عدیل کا وجود لرزنے لگا، اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اچانک ایک سیاہ سایہ اس کے قریب آیا اور ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ سب کچھ تاریکی میں ڈوب گیا۔
کئی دنوں بعد، عدیل کے دوست اس کے گھر پہنچے تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ پولیس کو بلایا گیا، جب دروازہ توڑا گیا تو عدیل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا کیمرہ بیڈ پر پڑا تھا، جس میں آخری تصویر میں ایک پیغام لکھا تھا: "اب میں ہمیشہ کے لیے قبرستان کا حصہ بن چکا ہوں..."


Post a Comment