د
یہ کہانی ایک ایسے بچے کی ہے جس کی آنکھوں میں خواب تو بہت تھے مگر وہ ایک تاریک قید خانے میں قید تھا۔ یہ بچہ، جس کا نام آریان تھا، اپنی ماں کی آغوش میں کھیلنے کے بجائے ظالموں کے پنجے میں تھا۔
پہلا باب: اغوا کی رات
ایک خاموش رات تھی، چاندنی ہر چیز کو چمکا رہی تھی۔ آریان ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا جہاں لوگ محنتی اور ایماندار تھے۔ مگر اس رات گاؤں پر ایک سیاہ سایہ چھا گیا۔ کچھ نامعلوم افراد گاؤں میں داخل ہوئے اور بچوں کو اٹھا کر لے گئے۔ ان میں آریان بھی شامل تھا۔
دوسرا باب: قید کی تاریکی
آریان نے جب آنکھ کھولی تو وہ ایک تنگ اور گندی کوٹھری میں تھا۔ باہر سے قہقہے اور سخت لہجے میں باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسے احساس ہوا کہ وہ ایک خطرناک گروہ کے قبضے میں ہے جو بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیتا ہے۔ آریان نے اپنے والدین کو یاد کیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
۔
تیسرا باب: آزادی کی امید
آریان کی کوٹھری کے قریب ایک اور قیدی تھا، جو ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس نے آریان کو تسلی دی اور کہا، ’’بیٹا! ہمت رکھو، ایک دن یہ ظلم ختم ہو گا۔‘‘ آریان نے دل میں فیصلہ کیا کہ وہ ہمت نہیں ہارے گا۔
چوتھا باب: فرار کی پہلی کوشش
ایک رات آریان نے اپنے ساتھی بچوں کے ساتھ مل کر فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔ مگر محافظوں نے انہیں پکڑ لیا اور سخت سزا دی۔ آریان کے دل میں خوف پیدا ہوا لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔
پانچواں باب: دوستوں کا ساتھ
قید میں آریان کی ملاقات زینب، فراز اور سلیم سے ہوئی، جو اسی کی طرح اغوا کیے گئے تھے۔ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ وہ مل کر آزادی حاصل کریں گے۔
چھٹا باب: باغی قیدیوں کا منصوبہ
آریان اور اس کے ساتھیوں نے کئی دن تک گارڈز کے معمولات کا جائزہ لیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک مخصوص وقت پر پہرے دار تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ ان کے فرار کا بہترین موقع تھا۔
ساتواں باب: خوف اور ہمت کی جنگ
فرار کی رات آ چکی تھی۔ ہر دل میں خوف تھا مگر آزادی کی تڑپ نے سب کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔ زینب نے ایک چابی چرا لی تھی، جس سے دروازہ کھولنا ممکن تھا۔ مگر اچانک ایک محافظ کی آنکھ کھل گئی۔
آٹھواں باب: مقابلہ اور قربانی
محافظوں نے بچوں کو روکنے کی کوشش کی، مگر آریان اور اس کے دوستوں نے ہمت نہ ہاری۔ سلیم نے بہادری سے محافظ
کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، لیکن بدقسمتی سے وہ پکڑا گیا۔ باقی بچے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔
نواں باب: آزادی کا سورج
صبح کا اجالا ہوتے ہی آریان اور اس کے ساتھی ایک قریبی گاؤں پہنچے۔ وہاں کے لوگوں نے ان کی مدد کی اور حکومت کو اطلاع دی۔ ایک بڑا آپریشن کیا گیا اور باقی بچوں کو بھی بچا لیا گیا۔
دسواں باب: ایک نئی زندگی
آریان اور اس کے ساتھی اپنے گھروں کو واپس آ گئے۔ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے تھے۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ کسی اور بچے کو ایسی مصیبت میں نہیں پڑنے دیں گے۔
گیارہواں باب: آزادی کی جدوجہد جاری
آریان، زینب اور فراز نے ایک مشن کا آغاز کیا جس کے تحت وہ ایسے تمام بچوں کو بازیاب کرانے کے لیے کام کریں گے جو غلامی کا شکار ہو چکے تھے۔ انہوں نے حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کیا اور ایک بڑی تحریک کی بنیاد رکھی۔
بارہواں باب: دشمنوں کی سازش
جیسے جیسے ان کی تحریک آگے بڑھ رہی تھی، اغوا کار گروہ ان کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ ان پر حملے کیے گئے، مگر آریان اور اس کے ساتھیوں نے ہمت نہ ہاری۔ وہ ایک محفوظ جگہ منتقل ہو گئے جہاں سے وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔
تیرہواں باب: انقلاب کی شروعات
آریان اور اس کی ٹیم نے سوشل میڈیا، اخباروں اور دیگر ذرائع سے لوگوں کو بیدار کرنا شروع کیا۔ ہزاروں لوگ ان کے مشن میں شامل ہو گئے۔ حکومت نے بھی ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
چودہواں باب: آخری معرکہ
آخرکار وہ وقت آ گیا جب اغوا کاروں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا گیا۔ پولیس اور فوج نے ایک ساتھ کارروائی کی۔ اس دوران آریان اور اس کے ساتھیوں نے بھی اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی بچوں کو آزاد کرایا۔
پندرہواں باب: فتح اور نیا سفر
یہ مشن کامیاب رہا، اغوا کاروں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا اور سینکڑوں بچے آزاد کر دیے گئے۔ آریان کو ایک قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ لیکن وہ یہیں نہیں رکا، بلکہ اس نے ایک ایسا ادارہ بنایا جہاں اغوا شدہ بچوں کو تحفظ، تعلیم اور ایک نیا مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
یہ کہانی صرف ایک بچے کی نہیں بلکہ ہر اس انسان کی ہے جو ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ آزادی کی جدوجہد کبھی آسان نہیں ہوتی، مگر سچائی اور ہمت ہمیشہ فتح حاصل کرتی ہے۔


Post a Comment