"وہ رات جو کبھی ختم نہیں ہوئی"
ایک سرد، کالی رات تھی جب گاؤں کے کنارے پر واقع پرانا حویلی کے دروازے پر اچانک ایک ہلکی سی آواز آئی۔ یہ آواز نہ جانے کہاں سے آئی تھی، لیکن اس میں ایک غیر معمولی سرگوشی تھی، جیسے کوئی گہری سانس لے رہا ہو، یا شاید وہ کچھ کہہ رہا ہو، جو کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ حویلی کئی سالوں سے خالی پڑی تھی، اور گاؤں والے اس سے خوف کھاتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہاں کچھ عجیب اور غیر فطری چیزیں ہو رہی ہیں۔
گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس حویلی سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے، مگر وہ جو رات میں وہاں آتے، اُنہیں کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ یہ کہانیاں نسلوں سے سنائی جا رہی تھیں، لیکن اس رات کچھ اور تھا۔ وہ جو کچھ بھی تھا، وہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس رات اس حویلی میں کچھ اور ہو گا۔
پھر ایک دن، گاؤں میں ایک اجنبی آیا۔ اُس کا نام عارف تھا اور وہ ایک محقق تھا۔ عارف نے فیصلہ کیا کہ وہ اس حویلی کے راز کو کھولے گا۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ جو کچھ بھی گاؤں والے کہتے ہیں، وہ محض افواہیں ہیں، اور اس میں کچھ حقیقت نہیں ہو
سکتی۔ لیکن جب وہ حویلی کے دروازے تک پہنچا، تو وہ محسوس کرنے لگا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔
جب عارف نے دروازہ کھولا، ایک سرد ہوا کا جھونکا آیا اور اُس کے جسم میں ایک عجیب سی کپکپی دوڑ گئی۔ یہ ہوا نہیں تھی، کچھ اور تھی، جیسے وہ خود ہی اُس کے اندر سے آ رہی ہو۔ عارف نے اندر قدم رکھا، اور جیسے ہی اُس نے حویلی کے اندر کی تاریکی کو پار کیا، اُسے ایک آواز سنائی دی۔
"آ جاؤ... آ جاؤ..."
یہ آواز کسی انسان کی نہیں، بلکہ کسی غیر معمولی مخلوق کی تھی۔ عارف نے اپنے قدموں کو مزید آگے بڑھایا اور حویلی کے اندر کی گہرائیوں میں قدم رکھا۔ ہر کمرہ، ہر دیوار، اور ہر گوشہ اُس کی نظر سے گزر رہا تھا، لیکن جیسے جیسے وہ اندر جا رہا تھا، اُس کی جسمانی حالت زیادہ خراب ہوتی جا رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی، اور سانسوں میں تنگی محسوس ہونے لگی تھی۔
"تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔" اچانک ایک آواز آئی۔
عارف نے پیچھے مڑ کر دیکھا، لیکن کچھ دکھائی نہیں دیا۔ وہ اب سمجھنے لگا تھا کہ گاؤں والے جو کچھ کہتے ہیں، وہ سچ ہو سکتا ہے۔ وہ حویلی میں تنہا نہیں تھا۔
... (کہانی یہاں سے جاری رکھی جا سکتی ہے)
میں اس کہانی کو مزید بڑھا سکتا ہوں، اگر آپ چاہیں تو! آپ اسے کسی خاص طریقے سے ختم یا موڑنا چاہتے ہیں؟
"وہ رات جو کبھی ختم نہیں ہوئی"
عارف کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ حویلی کی اندرونی فضا نے اسے جکڑ لیا تھا، جیسے وہ کسی جال میں پھنس چکا ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس جگہ کی ہوا میں کچھ ایسا تھا جو اُسے مسلسل جکڑ کر رکھ رہا تھا، جیسے وہ اس دنیا سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہو لیکن کوئی طاقت اسے اندر کی طرف کھینچ رہی ہو۔
اس کی نظر چاروں طرف دوڑنے لگی، مگر کہیں بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر اچانک ایک سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا، اور عارف کا دل دھک سے رہ گیا۔ ایک دھندلی سی شکل نظر آئی، جو دھیرے دھیرے قریب آ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کوئی انسانی وجود نہیں ہے۔ سایہ مکمل طور پر سیاہ تھا اور اس میں کسی بھی قسم کی زندگی کا کوئی نشان نہیں تھا۔
عارف کی آواز گلے میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ حرکت کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا جسم جیسے پتھر کا ہو چکا تھا۔ سایہ اُس کے قریب آ کر رک گیا، اور پھر ایک دھیمی سی آواز گونجی، "تم یہاں کیوں آئے ہو؟"
عارف نے بمشکل اپنی زبان کو حرکت دی اور کہا، "میں اس حویلی کے راز کو جاننا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میں حقیقت کو سمجھ سکوں۔"
سایہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا، "حقیقت؟ حقیقت تمہاری سمجھ سے باہر ہے۔ تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ ہم کیوں یہاں ہیں؟ تمہیں یہ حقیقت کبھی نہیں ملے گی، کیونکہ تمہیں زندہ واپس نہیں جانے دیا جائے گا۔"
عارف کی آنکھوں میں خوف تھا، لیکن اس کے ساتھ ایک عجیب سی جستجو بھی تھی۔ "کیا تم لوگ مر چکے ہو؟"
"ہم وہ ہیں جو کبھی زندہ نہیں تھے۔" سایہ جواب دیتا ہے، اور اس کی آواز میں ایک عجیب سی لرزہ انگیز سرگوشی تھی۔ "ہم نے کبھی زندگی کے معنی نہیں سمجھے، اور اب ہمیں اپنے کیے کا عذاب مل رہا ہے۔"
عارف کی نظریں اس سیاہ سایہ میں کچھ تلاش کر رہی تھیں، لیکن کچھ نہیں تھا۔ پھر سایہ آہستہ آہستہ غائب ہو گیا، اور عارف کو احساس ہوا کہ وہ اب اس حویلی کے مرکز میں کھڑا تھا
۔
وہ ایک کمرے میں پہنچا جس کی دیواروں پر بے شمار پرانے نقوش تھے۔ یہ نقوش ایک مخصوص پیغام دے رہے تھے، مگر عارف کی نظریں ان پر نہیں رکیں۔ اس کی نظریں بس ایک چھوٹے سے کمرے کی طرف مرکوز ہو گئی تھیں جہاں ایک ٹوٹا پھوٹا بستر پڑا تھا۔ عارف نے قریب جا کر بستر کو اٹھایا اور نیچے ایک پرانا، خاکی رنگ کا صندوق دیکھا۔
اس صندوق کو کھولتے ہی ایک زبردست آواز آئی، جیسے کوئی دروازہ کھل رہا ہو۔ صندوق کے اندر ایک چھوٹا سا نوٹ تھا، جس پر کچھ لکھا تھا۔ عارف نے اس نوٹ کو کھولا، اور جیسے ہی اس نے لکھا ہوا پڑھنا شروع کیا، اس کے جسم میں ایک عجیب سی سردی دوڑ گئی۔ "تم نے ہمیں جاگنے کی اجازت دی ہے۔ اب تمھیں ہمارا عذاب جھیلنا ہوگا۔"
یہ الفاظ پڑھتے ہی پورے کمرے میں ایک عجیب سی گونج ہونے لگی۔ دیواروں سے آوازیں آ رہی تھیں، جیسے وہ زندہ ہو کر عارف کے ارد گرد گھوم رہی ہوں۔ عارف کی نظر میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور اس کے دماغ میں ایک ہی سوال تھا: "اب کیا ہوگا؟"
اچانک کمرے کی روشنی مدھم ہو گئی، اور ایک خوفناک ہنسی سنائی دی۔ عارف نے پیچھے مڑ کر دیکھا، اور اس کی نظریں ساکت ہو گئیں۔ حویلی کے دروازے پر وہ سایہ دوبارہ ظاہر ہو گیا تھا، اور اب وہ اس سے کہیں زیادہ قریب تھا۔
"تم نے ہمارے راز جاننے کی کوشش کی، عارف۔ اب تمہیں ہمارے ساتھ رہنا ہوگا۔" سایہ بولتے ہوئے آہستہ آہستہ عارف کے قریب آیا، اور ایک لمحے میں اس نے عارف کو اپنے اندر جذب کر لیا۔
حویلی کی پرانی دیواروں میں ایک اور آواز گونجی، اور یوں عارف کا جسم اور روح ہمیشہ کے لیے اس جگہ کا حصہ بن گئے۔ وہ حویلی جو کبھی زندگی سے خالی تھی، اب ایک اور روح کی قید میں تھی، اور گاؤں کے لوگ پھر سے اُس حویلی سے خوف کھانے لگے، کیونکہ اب وہاں ایک اور کہانی تھی جو آنے والے وقتوں میں سنائی جائے گی۔
عارف جب حویلی کے اندر قدم رکھ چکا تھا، اس کی دل کی دھڑکن مسلسل تیز ہو رہی تھی۔ ہر طرف کی تاریکی میں وہ گم ہو چکا تھا، جیسے دنیا اور حقیقت دونوں اس سے دور ہو گئے ہوں۔ لیکن جب اس نے اپنی نظریں ہلکی سی روشنی کی طرف مڑائیں، تو ایک خوفناک منظر اس کے سامنے آیا۔
وہ روشنی جو ابتدا میں اسے معمولی سی دکھائی دی تھی، اب ایک دروازے کے پیچھے سے آ رہی تھی۔ وہ دروازہ قدیم اور سڑ چکا تھا، لیکن اس کی درزوں سے ایک سرخ روشنی جھانک رہی تھی۔ جیسے کسی خالی کمرے سے خون کی روشنی پھوٹ رہی ہو۔ عارف کی نظر اس روشنی پر جما تھی۔ اس کے قدم خود بخود اس دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
جب اس نے دروازہ کھولا، تو اندر ایک خون آلود منظر تھا۔ کمرہ خالی تھا، لیکن دیواروں پر گہرے خون کے دھبے تھے جو مسلسل حرکت کر رہے تھے۔ اچانک، دیواروں سے ایک ایسی آواز آئی جس نے عارف کے پورے جسم کو لرزا دیا۔ آواز تھی، "ہم نے تمہیں آگے آنے کی اجازت دی ہے، لیکن اب تمہیں ہمارا عذاب جھیلنا ہوگا۔"
عارف نے ہمت باندھ کر ایک قدم اندر رکھا۔ جیسے ہی وہ اندر گیا، اس نے محسوس کیا کہ زمین پر کچھ نرم اور گیلے نشان پڑے ہیں۔ جب اس نے قریب جا کر ان نشانوں کو دیکھا، تو اس کی آنکھوں کے سامنے ایک خوفناک منظر تھا: وہاں خون کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ کے نشان تھے، جیسے کوئی چھوٹا بچہ ان دیواروں پر رینگتے ہوئے خون چھوڑ گیا ہو۔
عارف کا دماغ چکرا گیا تھا، اور وہ فوراً کمرے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن جیسے ہی اس نے دروازے کے قریب قدم بڑھائے، دروازہ بند ہوگیا اور وہ اندر ہی قید ہوگیا۔
اسی لمحے، کمرے کے گوشے میں ایک اور سایہ ظاہر ہوا، جو دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ ایک خوفناک مخلوق تھی جس کا چہرہ انتہائی مسخ ہو چکا تھا، اور اس کی آنکھوں میں سیاہ گہرائیاں تھیں۔ اس کی جلد پر گوشت کے ٹکڑے کٹے ہوئے تھے، اور اس کا جسم ایسے دکھ رہا تھا جیسے وہ کسی زندہ مردہ سے کم نہ ہو۔
"تم یہاں کیوں آئے ہو؟" مخلوق کی آواز ایک عجیب سرگوشی کی طرح گونج رہی تھی۔
عارف کا جسم کانپ رہا تھا، مگر اس نے کہا، "میں اس حویلی کے راز کو جاننا چاہتا ہوں۔ میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔"
مخلوق ہنسی اور اس کی ہنسی کی گونج پورے کمرے میں پھیل گئی۔ "تم نے یہ راز جاننے کی کوشش کی ہے، عارف، لیکن اب تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔"
مخلوق نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا اور اچانک کمرے کی روشنی اور بھی مدھم ہو گئی۔ دیواروں پر خون کی دھاریں گرتی دکھائی دیں، اور کمرے کی ہوا میں گہرا تعفن پھیل گیا۔ عارف نے دیکھا کہ کمرے کی ایک کونے میں ایک بڑا صندوق پڑا ہے، جو عجیب سے نشانات سے ڈھکا ہوا تھا۔
عارف نے بے اختیار اس صندوق کو کھولا، اور جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، ایک عجیب سی آواز سنائی دی، جیسے کسی نے گہرے گڑھے میں سے کوئی چیز نکالی ہو۔ صندوق میں ایک پرانی کتاب رکھی تھی، جس کے صفحات پر بے شمار غیر معمولی اور پراسرار علامات تھیں۔ جیسے ہی عارف نے کتاب کو کھولا، اس کے اندر سے ایک روشن دھار شروع ہوئی، اور کتاب کے صفحات اپنی جگہ سے حرکت کرنے لگے۔
اسی لمحے، وہ مخلوق دوبارہ ظاہر ہوئی اور بولا، "اب تمہیں ہماری دنیا میں شامل ہونا ہوگا۔ اب تم خود کو بچا نہیں سکو گے۔"
عارف کی آنکھوں میں خوف کی جھرمٹ تھی، اور اس کے دل میں صرف ایک ہی خیال تھا: "کیا میں بچ سکوں گا؟" اس نے کتاب کو دوبارہ بند کیا اور تیزی سے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی، مگر دروازہ اب بھی بند تھا۔
اچانک، اس کی آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر ابھرا۔ وہ خود کو ایک اور کمرے میں پاتا ہے جہاں ماضی کے تمام مسخ شدہ روحیں، جو اس حویلی میں قید تھیں، اس کے ارد گرد جمع ہو گئی تھیں۔ ان کی نظریں عارف پر جمی ہوئی تھیں، اور ان کی ہنسی اور سرگوشیاں اس کی سماعت میں گونج رہی تھیں۔
"اب تم ہمارے ساتھ ہو، عارف۔ اب تم کبھی نہیں جا سکو گے۔" ایک اور آواز آئی۔
عارف کے جسم میں پورے حویلی کی سیاہی جذب ہو چکی تھی۔ اب وہ خود بھی ان روحوں کا حصہ بن چکا تھا۔ وہ جو اس حویلی میں زندہ بچنے کی کوشش کر رہا تھا، اب وہ خود ایک اور مردہ روح بن چکا تھا، جو اس جگہ کی گونج میں گم ہو گیا۔


Post a Comment